NationalPosted at: Nov 29 2024 6:45PM عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق عدالت عظمی کے فیصلے پر سختی سے عمل کیا جائے: شاہی امام سید احمد بخاری
نئی دہلی،29نومبر(یو این آئی) سپریم کورٹ نے عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق جواشاریئے دےے ہیں، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر قدغن لگانے کے لئے سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ان خیالات کااظہار شاہی امام مولانا سیداحمد بخاری جامع مسجد دہلی نے آج نماز جمعہ سے قبل اپنے خطاب میں کیا آج یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں انھوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں اکتوبر1991میں بنے پارلیمانی ایکٹ عبادت گاہوں کے تحفظ کا خصوصی قانون پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے واضح تنبیہ کی تھی کہ اس ایکٹ کی رو سے مستقبل میں اس طرح کے مزید فتنوں کو ہوا نہ دی جائے، یہ اب سلسلہ ختم ہوجاناچاہئے لیکن ساتھ میں فیصلے میں کچھ ایسی گنجائش چھوڑدی گئی، جس کاغلط استعمال (مس یوز)اب روز کا وطیرہ بن گیاہے۔ جامع مسجد بدایوںکرناٹک ،مدھیہ پردیش ،اور دیگر ریاستوں میں اس طرح کے دعوے اور سروے کی باتیں نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ شاہی جامع مسجد سنبھل اور 800سال پرانی درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز ؒ تک پہنچ چکاہے۔آخر ہم اس طرح کے معاملات کو کہاںتک لے جاناچاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2019 میںبابری مسجد کے حوالے سے تمام زمینی حقائق مسجد کے حق میں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فیصلہ مندر کے حق میں دیا ہم روز اول سے عدالتوں کے فیصلے کو ماننے کی اور اپنے آپ کو اس کاپابند رکھنے کی کئی دہائیوں سے برابربات کرتے رہے ہیں۔عدالت کے فیصلے حقائق پر ہوتے ہیں جذبات پر نہیں۔انھوں نے دعوی کیا کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں یہ واحد فیصلہ جو اکثریت کے مذہبی جذبات کی بنیادپرحقائق سے روگرادانی کرتے ہوئے اس کے حق میں دیاگیامسلمانوں نے اپنا وعدہ نبھایا،عہد کی پابندی کی اور چوں تک نہیں کی۔
انھوں نے دعوی کیا کہ اب یہ سلسلہ سروے سے بڑھ کردنگوں، ہلاکتوں،یک طرفہ زیاتیوں،قیدوبند کی صعوبتوں، اور نفسیاتی محرومیوں کی حدوںکو پارکرتا جارہا ہے۔سنبھل میں ایک ضلع مجسٹریٹ آنافانا میں سروے آرڈر دیتاہے، دو گھنٹے میں اس پر عمل شروع ہوجاتاہے سروے ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور اسی دن سروے بھی کرلیاجاتاہے۔مسجد کمیٹی جو براہ راست فریق ہے جس کے صدرخود وکیل بھی ہیںان کو بھی سنا نہیں جاتا،ایسی جلد بازی کیوں؟ کیا کسی نئے فتنے کو جگانے کیلئے ایساکیاگیا؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے جب کہ پرامن طریقے سے پہلا سروے کرایاگیا ،کمیٹی کے لوگ سنبھل لوک سبھاکے رکن ضیاءالرحمن برق وہاں موجود رہے اور خوش اسلوبی سے یہ کام انجام پاگیا۔
مولانا بخاری نے کہا کہ ایک مرتبہ سروے کرنے میں فیصلے کی گنجائش تھی لیکن پھر دو دن بعددوبارہ سروے بغیر عدالت کی اجازت کے کیاگیا ،صبح نماز فجر کے وقت سروے ٹیم وہاں پہنچتی ہے، اگر ٹیم میں صرف سروے سے متعلق اراکین ہوتے ،تب بھی صبر آجاتا۔لیکن ان کے ساتھ غیر متعلق لوگوں کا نعرے لگاتے ہوئے مسجد میں داخل ہونااس بات کا ثبوت ہے کہ نیت سروے کی کم دنگے کی زیادہ تھی،عوام کااس حرکت پر غصہ آنافطری تھا۔ بعد ازاںحالات بگڑتے گئے گولیاں چلیں،ہلاکتیں ہوئیں، 5 نوجوان بچے لقمہ¿ اجل بن گئے ،متعدد لوگ زخمی ہوئے،متعدد گرفتاریاں ہوئیں،سیکڑوں لوگوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔شہر میں خوف وہراس کاماحول ہے ۔
انھوںنے کہا کہ زندگی میں کئی بار ایسے لمحات آتے ہیں جب انسان خود کوبے بس اور لاچار محسوس کرتاہے۔ آج یہی حال دنیا میں مسلمانوںکا ہے جہاں وہ سخت آزمائشوں اور امتحانی کیفیت سے گزررہاہے۔ غزہ، لبنان، سیریا، سوڈان،یمن اورعراق کے بے بس عوام دنیائے انسانیت کو پکارہے ہیں لیکن حیوانیت کایہ ننگا ناچ آج بھی برابر جاری ہے۔غزہ میں ہزاروں شہید،ہزاروں زخمی،لاکھوں بے گھراس تباہی اوربربادی کے بعد بھی مسلم ممالک بیدارنہ ہوسکیںتواس کو کیاکہاجاسکتا ہے؟ فلسطین کے نوجوانوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں نے جس صبرکا مظاہرہ کیاہے، ان کی اس جرا¿ت کو سلام ہے۔
انھوںنے کہا کہ آج وطن عزیز کے جو حالات ہیں اور جس سے آپ اور ہم گزررہے ہیں اب سب کو مل کر یہ طے کرناہوگا کہ یہ ملک کس طرف جاناہے جو ہم نے آئین میں طے کیاہے جس پر آج بھی سب کا اتفاق ہے ۔ آج قیادت وزیراعظم کے پاس ہے اور یہ تمام باتیں ان سے سیدھی جڑتی ہیں۔ اُس سے یہ یقین پیداہوتاہے اور ہونابھی چاہئے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہے برابری اور مساوات ہے اور عدل وانصاف کا دوردورہ ہے۔لیکن ہندوستان کی اقلیتوں میںبالعموم اور مسلمانان ہند میں بالخصوص سابقہ چند برسوں میں احساس محرومی پیداہوئی ہے۔ماضی میںاخلاق اور پہلوخاں کا واقعہ یک طرفہ بلڈوزنگ ، مساجد،مدارس اور مزارات کی متعدد انہدامی کارروائیاں، ہجومی تشدد کے مجرمین کے گلوں میں پھول پہناکر استقبالیہ دیاجانا۔
انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر ذرا احتجاج بھی کرے اور اس میں کچھ نقصان ہوجائے تو اس کی بھرپائی اسی سے کیاجاناان کوجیلوںمیں ڈالنا،ناجائز مقدمات دائر کرنا، توہین رسالت،قرآنی آیات کی بے حرمتی،اسلام اور مسلمانوںکے حوالے سے نہایت گھٹیا زبان کا استعمال یہ سب تو وزیراعظم آپ کے منصب سے میل نہیں کھاتے۔
انھوں نے سوال کیا کہ مسلمانانِ ہند اس ملک کے برابرکے شہری نہیں؟ہریانہ میں کئی سال پہلے فسادہوا، جس میں ہزاروں کروڑوں روپے کی سرکاری املاک کانقصان ہوا،ان فسادیوں سے تو کوئی بھرپائی نہیں کی گئی پھر ہمارے ساتھ ایساکیوں؟ ہمارے خلاف سرکاری کارروائی میں اتنی تیز ی کہ نوٹس نہ دیاجائے یا اتنا کم وقت دیاجائے کہ سامان بھی نہ اٹھاسکیں،مکان بھی ہمارے گرائے جائیں،مسجدیں بھی ہماری شہید کی جائیں،مزارات بھی ہمارے منہدم کئے جائیں اور مقدمے بھی ہم پر قائم کئے جائیں ایسے میں مسلمانوںمیں احساس محرومی پیدا نہ ہوتوپھر کیاہو؟
انھوں نے آخر میں کہا کہ میرا یہ سوال ہے کہ وزیراعظم صاحب یہ جو کچھ ہورہاہے اور جو اس کے کرنے والے ہیں، وہ آپ کے دوست کیسے ہوسکتے ہیں؟یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالے سے جواشاریئے دیئے گئے، ان پر عمل کرنا اور کروانا،روز یہ فتنے نہ پیدا ہوں،اس پر روک لگانااب آپ کو اس حوالے سے ایک سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اُس روشنی میں جس کاذکر آپ یوم آئین پر کرتے چلے آرہے ہیں۔
یو این آئی۔ ع خ۔م الف