InternationalPosted at: Sep 10 2024 1:13PM 2024 تک انتخابی سیاست مکمل طور پر بدل چکی تھی: راہل
واشنگٹن ، 10 ستمبر (یو این آئی) کانگریس کے سابق صدر اور ایوان زیریں میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے کہا ہے کہ 2014 کے مقابلہ میں 2024 کے عام انتخابات تک کی سیاست پوری طرح سے بدل چکی تھی اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کواس کا احساس ہو گیا تھا کہ ان کا 400 سے تجاوز کرنے کا نعرہ ہدف تک نہیں پہنچ رہا اور اس کی بنیاد ہی تباہ ہو چکی ہے۔
یہاں جارج ٹاو¿ن یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے کہا کہ سیاست میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ مسٹر مودی جس سیاست کے ذریعے 2014 میں اقتدار میں آئے تھے وہ 2024 تک پوری طرح بدل چکی تھی اور مسٹر مودی کی قیادت والے اتحاد کے لیے منصفانہ انتخابات میں 240 سیٹیں بھی جیتنا مشکل ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ” سیاست میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں یہ ایک مقابلہ ہے اور یہ اس کا ایک حصہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح سے میں اسے دیکھ رہا ہوں، اس نے ہمیں اور انڈیا اتحاد کو یہ سوچ دی ہے کہ ہم کس طرح آگے بڑھیں۔ آج کے ہندوستان میں سیاست بنیادی طور پر بدل چکی ہے۔ ہمارے پاس طویل نقطہ نظر پر مبنی سیاسی توجہ ہے۔ ہماری سیاست وزیر اعظم نریندر مودی کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہے، ہماری لڑائی ان کی سوچ سے ہے اور ہم اس سے لڑتے ہیں۔ ہم ایک نئے ویژن کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے بھی وقتاً فوقتاً ایسا کیا ہے“۔
مسٹر گاندھی نے کہا”یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو قووتیں مسٹر مودی کو 2014 میں اقتدار میں لائی تھیںوہ اب فرسودہ ہو چکی ہیں۔ بہت سی چیزیں اکٹھی ہو گئیں۔ انتخابات سے پہلے ہم اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اداروں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، تعلیمی نظام پر آر ایس ایس کا قبضہ ہے، میڈیا پر قبضہ ہے اور تحقیقاتی ایجنسیوں پر قبضہ ہے۔ تاہم، لوگ اسے نہیں سمجھ رہے تھے اور ہم اس وجہ کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے“۔
ذات پات کے نظام سے متعلق سیاست پر انہوں نے کہا”میں سمجھتا ہوں کہ جدید ہندوستان ایک طویل عرصے سے آئین کے حق میں یا اس کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے۔ یہ واقعی اس کا بنیادی مقصد ہے - یہ خیال کہ تمام ہندوستانیوں کو مساوی ہونا چاہئے اور ذاتوں کے درجہ بندی کے خلاف یکساں سلوک کیاجانا چاہئے۔ یہ ایک جدوجہد ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔یہ ایک فلسفیانہ لڑائی ہے اور اس کا اپنا سیاسی ڈھانچہ ہے“۔
انہوں نے کہا”ایک میٹنگ میں، ہمارے ساتھ کام کرنے والے کسی نے کہا، 'آئین کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ ہم نے آئین کو پکڑنا شروع کیا اور جو کچھ ہم کہہ رہے تھے وہ سیاسی طور پر دھماکہ خیز ہو گیا۔ اس الیکشن میں ہندوستان کو احساس ہوا کہ اسے اتنی بے دردی سے تقسیم نہیں ہونا چاہیے اور غریب، محروم اور مظلوم ہندوستان نے بھی سمجھ لیا کہ اگر آئین کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک چونکا دینے والا احساس تھا جس کا میں نے مشاہدہ کیا۔ غریب لوگوں نے گہرائی سے سمجھا کہ اب یہ آئین کی حفاظت کرنے والوں اور اسے تباہ کرنے والوں کے درمیان لڑائی ہے“۔
انہوں نے کہا” مجھے نہیں لگتا تھا کہ بی جے پی منصفانہ انتخابات میں 240 سیٹوں کے قریب بھی پہنچے گی۔ میں حیران رہ گیا۔ انہوں نے بہت زیادہ مالی فائدہ اٹھایا اور ہمارے بینک اکاو¿نٹس بند کر دئیے۔ الیکشن کمیشن وہی کررہاتھا جو وہ چاہتےتھے۔ پوری مہم کو اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ مسٹر مودی مختلف ریاستوں کے لیے مختلف ڈیزائن کے ساتھ ملک بھر میں اپنا ایجنڈا چلا سکیں۔ میں اسے آزاد الیکشن کے طور پر نہیں دیکھتا۔میں اسے انتہائی کنٹرول شدہ الیکشن کے طور پر دیکھتا ہوں۔“
کانگریس لیڈر نے کہا”انتخابی مہم کے دوران میں نے محسوس کیا کہ مسٹر مودی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ 400 کے قریب سیٹیں حاصل کر لیں گے۔ ابتدائی طور پر انہیں احساس ہوا کہ چیزیں غلط ہو رہی ہیں اور ہم معمول کے ذرائع سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ خفیہ ایجنسیاں بھی ہمیں معلومات فراہم کر رہی تھیں۔ یہ بالکل واضح تھا کہ وہ مشکل میں ہیں اور وزیر اعظم کے اندر یہ اندرونی کشمکش چل رہی ہے جسے میں دیکھ سکتا ہوں۔ نفسیاتی طور پر، یہ ایسا ہی تھا-’یہ کیسے ہو رہا ہے‘۔“
انہوں نے کہا”ہندوستان میں کیا ہوا ہے، آپ دیکھیں گے کہ مودی کو اقتدار میں لانے والا اتحاد ٹوٹ گیا ہے اور یہ ٹھیک درمیان سے ٹوٹ گیا ہے۔ یہ بنیادی سوچ کہ مسٹر مودی ہندوستان کے لوگوں کے لیے حکومت چلا رہے ہیں ختم ہو چکاہے“۔
یواین آئی، م ش