image
Monday, Jan 20 2025 | Time 01:57 Hrs(IST)
Entertainment

بھوجپوری فلموں کے بانی نذیر حسین کو بھوجپوریوں نے ہی فراموش کردیا

بھوجپوری فلموں کے بانی نذیر حسین کو بھوجپوریوں نے ہی فراموش کردیا

یوم پیدائش پر خاص
ممبئی،14مئی (یو این آئی)بھوجپوری فلموں کے بانی، دیش رتن، مجاہد آزادی ،مشہور فلم اداکار نذیر حسین آج ہی کے دن15مئی 1922 کو پیدا ہوئے تھے وہ بہترین اداکار، ہدایت کار اورمکالمہ نویس تھے انھوں نے ہندی سنیما کی تقریباً 500 فلموں میں بہت ہی اہم اور کلیدی رول ادا کیا لاجواب شخصیت اور متاثرکن آواز کے مالک نذیر حسین ریاست اترپردیش کے ضلع غازی پورکے گاﺅں اسیا ، دلدارنگر ٹاﺅن میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد ریلوے گارڈ تھے۔
نذیر حسین کی پرورش لکھن ¶ میں ہوئی۔
انھوں نے تھوڑے عرصے کے لیے برطانوی فوج میں بھی کام کیا۔
پھر وہ سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوکر اویسا گاﺅں کے ہی مجاہد آزادی حاجی احمد علی کے ساتھ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہوئے۔
یہ دونوں اوسیا گاﺅں کے مجاہدین آزادی ساتھ ساتھ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) میں شامل ہو کر ملک کی آزادی کے لئے برما، سماترا، ملیشیا وغیرہ ملکوں میں رہ کر ملک کو آزاد کرانے کےلئے جدوجہد کرتے رہے جس کے نتیجے میں دونوں کو جیل بھی جانا پڑا، یہی وجہ ہے کہ آخری سانس تک دونوں میں گہری دوستی رہی۔

غازی پور سے تعلق رکھنے والے سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری نے بتایا کہ نذیر حسین کی بالی وڈ میں جانے کی ایک بڑی وجہ ان کی آئی این اے سے وابستگی تھی۔
نذیر حسین نے ہندوستان کے مقبول ہدایتکار بمل رائے کے ساتھ مل کر فلم ”پہلا آدمی“ بنائی۔
یہ فلم آئی این اے کے تجربے کی بنیاد پر بنائی گئی تھی۔
برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد نذیر حسین کو حریت پسند قرار دیا گیا۔
انھیں زندگی بھر کے لیے مفت ریلوے پاس دے دیا گیا۔
ان دنوں بمل رائے اور سبھاش چند بوس آئی این اے پر فلم بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے وہ آئی این اے ارکان کی تلاش میں تھے تاکہ وہ ان کی معاونت کریں۔
نذیر حسین کی شخصیت اور خوبصورت آواز نے بمل رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
تاہم نذیر حسین فلموں میں کام کرنے کے لیے تیار نہ تھے کیوں کہ ان کا پس منظر فلمی نہیں تھا۔
ان کے دوستوں نے انھیں فلموں میں کام کرنے کے لیے قائل کیا۔
”پہلا آدمی“ 1950ءمیں ریلیز ہوئی۔
اس کے بعد وہ بمل رائے کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے۔
کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے شائقین فلم نے ان کی بہت پذیرائی کی۔
انھوں نے ان گنت سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔
وہ جذباتی مناظر خاص طور پر فلموں میں باپ کے کردار کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔

انھوں نے کہا کہ نذیر حسین کو ہمیشہ اس بات کا رنج رہا کہ بھوجپوری سینما کی ترقی اور نشو و نما دیکھنے سے پہلے ہی سابق صدر راجندر پرساد چل بسے۔
نذیر حسین جس فلم میں بھی ہوتے تھے اپنا نقش چھوڑ جاتے تھے۔
سابق صدر راجندر پرساد سے ایک تقریب میں نذیر حسین نے ملاقات کی۔
چوں کہ نذیر حسین یو پی کے ضلع غازی پور سے تعلق رکھتے تھے، انھیں جب یہ علم ہوا کہ راجندر پرشاد کا تعلق بھی غازی پور سے ہے تو وہ ان سے ملنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔
ملاقات کے دوران میں انھوں نے سابق ہندوستانی صدر سے بھوجپوری سینما کے بارے میں تفصیلی بات چیت کی۔
سابق صدر نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں تلقین کی کہ وہ بھوجپوری زبان میں فلمیں بنائیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے اپنے بھرپور تعاون کی بھی پیشکش کی۔
بعد میں ہندی فلموں کے اس ایکٹر نے بھوجپوری سینما کی نشو و نما میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
وہ ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ ایکٹر، ڈائریکٹر اور اسکرین رائٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔

پہلی بھوجپوری فلم(1962) ”گنگا میا تو ہے پیئری چڑھیبو“ (Ganga Maiya Tohe Piyari Chadhaibo)کی تکمیل میں نذیر حسین نے جو کردار ادا کیا، اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔
ان کی بھوجپوری فلم ”بالم پردیسیا“ بھوجپوری فلمی صنعت کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتی ہے۔
نذیر حسین کی بھوجپوری زبان میں فلمیں سماجی مسائل کے گرد گھومتی تھیں۔
ان کی فلموں میں جہیز کا مسئلہ اور بے زمین کسانوں کی مشکلات اہم ترین موضوعات تھے۔
جوان لڑکی کے مجبور باپ کے کردار میں ان کی اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
انھوں نے اپنی فلموں میں ظالم زمینداروں اور سرمایہ داروں کی مکاریوں کو بے نقاب کیا۔

سابق ڈی جی پی ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ آج بھوجپوری فلمیں انتہائی سطحی درجہ کی ہوگئی ہیں، جس میں جسم کی بے ڈھنگے پن سے نمائش عام ہوتی جارہی ہے،اس کے لئے بھوجپوری فلموں کے کلاکار، سنگیت کار سمیت سبھی ذمہ دار ہیں۔
بھوجپوری زبان کی مٹھاس و شیرینی کو بچانا ہے اور اس کی وراثت کو بچانا ہے۔
بھوجپوری زبان اور تہذیب و تمدن میں کبھی پھوہڑپن، گھٹیا قسم کی زبان وغیرہ کا استعمال نہیں ہوا تھا لیکن آج اس کے معیار میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے، حالانکہ بھوجپوری اُردو کی طرح انتہائی عمدہ اور میٹھی زبان ہے جس سے سننے اور بولنے والوں کو لذت محسوس ہوتی ہے۔
ایسی پیاری اور عمدہ زبانیں آج زوال کا شکار ہےں، آج ان کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
آج بھوجپوری تہذیب میں جس طریقے کا پھوہڑپن آگیا ہے اس کی صفائی کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سب کے لئے جو لوگ یا جو کلاکار ذمہ دار ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور جس طرح کی شفافیت نذیر حسین بھوجپوری فلموں میں چھوڑ کر گئے تھے وہ دوبارہ واپس لانے کی کوشش ہم سب کو اور خاص کرکے بھوجپوریوں کو کرنا چاہئے۔

بے مثال خوبیوں کے مالک نذیر حسین 1987 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی شخصیت تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
ان کے گاﺅں کو آج بھی ان کے نام سے یادکیا جاتا ہے،اسیا گاﺅں میں جہاں ایک طرف نذیر حسین جیسے بے مثل فنکار پیداہوئے، وہیں دوسری طرف اسی مٹی سے کئی مجاہدین آزادی نے بھی جنم لیا۔
ابھی حال ہی میں گاﺅں اسیا کی سائمہ سراج خان نے آئی اے ایس (IAS)بن کر اپنے گاﺅں کا نام روشن کیا ہے۔

یو این آئی۔
ع ا۔
م الف

image